اداریہ

انتخابات اور جمہوریت کا فروغ
جوں جوں پولنگ کی تاریخ قریب آرہی ہے، سیاسی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔ عام لوگوں کے جوش و خروش میں اضافہ کے ساتھ کچھ خدشات بھی ہیں جن سے چشم پوشی خیبرپختون خوا اور بلوچستان سمیت ملک کے بعض علاقوں میں دہشت گردی اور سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کے تناظر میں ممکن نہیں۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ بعض پاکستان دشمن قوتیں اور ان کے ایجنٹ وطن عزیز میں پر امن انتخابات کے انعقاد کو اپنے ایجنڈے کے منافی سمجھتے ہیں۔ جبکہ بسا اوقات بے ہنگم و غیر منظم احتجاجی سرگرمیاں روزمرہ زندگی میں خلل ڈالنے کاباعث بنتی ہیں۔ اس منظر نامہ میں عسکری قیادت کا یہ عزم قوم کے اعتماد میں اضافہ کا باعث ہے کہ سیاسی سرگرمی کے نام پر کسی بھی پرتشدد کارروائیوں اور آزادانہ ومنصفانہ انتخابات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی صدارت میں منعقدہ 262 ویں کور کمانڈرز کانفرنس نے ملک میں امن و استحکام یقینی بنانے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے مسلح افواج کے افسران، جوانوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور شہریوں کی عظیم قربانیوں کوزبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ فیصلہ کیا کیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے دشمن قوتوں کے اشارے پر کام کرنے والے دہشت گردوں ان کے سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں سے ریاست پوری طاقت سے نمٹے گی۔ اس موقع پر خطاب میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ملک کی خودمختاری اور علاقائی سا لمیت مقدس اور ناقابل تسخیر ہے۔ پاکستان تمام ریاستوں کے ساتھ پر امن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے تاہم ملکی خودمختاری، قومی غیرت اور پاکستانی عوام کی امنگوں پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ فورم میں بھارت کی طرف سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، مسئلہ فلسطین کے پائیدار حل، مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کے حق خود ارادیت کے پاکستان کے موقف اور عزم کا اعادہ کیا گیا جبکہ عام انتخابات کے پر امن انعقاد میں الیکشن کمیشن کی مدد کے لیے پاک فوج کی تعیناتی پر بھی گفتگو کی گئی۔ یہ بات دہرائی گئی کہ فوج آئینی مینڈیٹ او ر الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق فرائض سر انجام دے گی۔ کانفرنس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ سیاسی سرگرمیوں کے نام پر کسی کو بھی پرتشدد کارروائیوں اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کور کمانڈرز کانفرنس کی اس کارروائی سے واضح ہے کہ ملک کی سرحدوں پر ہی نہیں اندرون ملک بھی ہر مقام پر ہماری فوج اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں کے جوان دشمن سے نبرد آزما ہونے کیلئے تیار و مستعد ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور
عام انتخابات کے قریب آتے ہی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور عوام کے سامنے رکھ دیئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جو منشور پیش کیا ہے ، اس کے اہم نکات میں پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں، مہنگائی، غربت اور قومی احتساب بیورو (نیب) کا خاتمہ، فی کس آمدن دو ہزار ڈالرز سالانہ، عدالتی اصلاحات اور پارلیمنٹ کی بالادستی شامل ہیں۔ (ن) لیگ کی منشور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے ماڈل ٹاﺅن لاہور میں پارٹی کے قائد نواز شریف اور صد شہباز شریف کی موجودگی میں پارٹی منشور کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ منشور پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے خصوصی کونسل اور عمل درآمد کونسل قائم کی جائے گی اور کونسل حکومتی کارکردگی کی سہ ماہی رپورٹ مرتب کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں کہا گیا ہے کہ تمام سرکاری دفاتر کو ماحول دوست بنائیں گے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا۔ عدالتی اصلاحات، آرٹیکل 62 اور 63کو اپنی اصل حالت میں بحال کیا جائے گا۔ عدالتی، قانونی، پنچایت سسٹم اور تنازعات کے تصفیہ کا متبادلہ نظام ہوگا، عدالتی، قانونی اور انصاف کے نظام میں اصلاحات کی جائیں گی۔ کمرشل عدالتیں قائم کی جائیں گی، سمندر پار پاکستانیوں کی عدالتیں بہتر اور مضبوط بنائی جائیں گی۔ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 1.5 فیصد تک کیا جائے گا، تین سال میں اقتصادی شرح نمو 6 فیصد سے زائد پر لائی جائے گی۔ افرادی قوت کی سالانہ ترسیلات زر کا ہدف 40 ارب ڈالرز رکھا گیا ہے۔ منشور میں شامل خارجہ پالیسی میں اقدامات میں بتایا گیا ہے کہ خطہ کے امن اور معاشی ترقی کی بنیادوں پر بھارت سے تعلقات استوار کیے جائیں گے، ضروری ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنے غیر آئینی اقدام واپس لے۔ افغانستان کے ساتھ امن اور تجارت کیلئے رابطوں میں اضافہ اور موثر سرحدی نظام کو بہتر بنائیں گے۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی پر عالمی سطح پر آواز اٹھائیں گے۔ امریکہ کے ساتھ عالمی معیشت، تجارت، انسداد دہشت گردی وغیرہ کے مسائل پر مل کر کام کریں گے۔ ملک بھر میں شمسی توانائی سے 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔ اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات سے نمٹنے کیلئے سخت سزائیں دی جائیں گی۔ دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی بنائی جائے گی۔
انتخابات کے پر امن انعقاد کا عزم
سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ 8 فروری کے بعد ہی اس بارے میں کہا جاسکے گا کہ الیکشن کیسے ہوئے، الیکشن برائے الیکشن نہیں بلکہ جینوئن الیکشن ہونے چاہئیں۔ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کے سبب ہم نے نصف ملک گنوادیا۔ ہمارے معاشرے میں اظہار رائے کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ عدالت کا امتحان ہے کہ عوام کا اعتماد بحال رہے، فیصلوں پر عملدرآمد ہو۔ ادھر پنجاب پولیس نے الیکشن کے پر امن انعقاد اور پولنگ اسٹیشنز کی مانیٹرنگ سے متعلق اہم سنگ میل عبور کرلیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر سیف سٹیز اتھارتی، پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) اور نیشنل ریڈیو ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن میں معاہدہ طے پایا ہے۔ آئی جی پنجاب عثمان انور کی موجودگی میں تینوں اداروں کے نمائندگان نے معاہدہ پر دستخط کیے۔ معاہدہ کے مطابق جنرل الیکشن کی مانیٹرنگ کے لیے 29 ہزار کیمرے خریدے جائیں گے۔ کیمروں کی خریداری پر کل ایک ارب 35 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ عام انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے 7 لاکھ بیلٹ باکس کا انتظام کرلیا ہے۔ ملک بھر میں دو لاکھ 76 ہزار سے ز ائد پولنگ بوتھ قائم کیے جارہے ہیں، ہر پولنگ بوتھ کے لیے ایک بیلٹ باکس قومی اور دوسرے میں صوبائی اسمبلی کے لیے ووٹ کاسٹ ہوں گے۔ ملک بھر میں 5 لاکھ 52 ہزار بیلٹ باکس استعمال ہوں گے جبکہ ڈیڑھ لاکھ ریزرو ہوں گے، بیلٹ باکس بھر جانے پر دوسرا بیلٹ باکس فراہم کیا جائے گا۔ دو پولنگ بوتھ پر 5 بیلٹ باکس فراہم کیے جائیں گے جن میں ایک اضافہ ریزرو باکس ہوگا، ہر بیلٹ باکس پر الیکشن کمیشن کا لوگو پرنٹ ہوگا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2018، میں 48.176 ملین روپے مالیت کے خریدے گئے جو ضرورت سے زائد تھے۔ اس وقت 87 ہزار 77 بیلٹ باکس کی کمی تھی مگر دو لاکھ دو ہزار 239بیلٹ باکس خریدے گئے تھے۔ صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب کا کہنا ہے کہ صوبہ بھر میں انتخابی مہم کی مانیٹرنگ کا مربوط نظام بھرپور طریقے سے فعال ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز کی جانب سے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ افسر کو جمع کرائی گئی رپورٹ کا الیکشن کمیشن نے جائزہ لیا اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔
پاک ایران وزرائے خارجہ کی ملاقات
پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اجتماعی نقہ نظر کی بنیاد پر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے جبکہ نگراں وزیر خارجہ جلیل عباسی جیلانی نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان دوست ہمسایہ ممالک ہیں، ایران سے دیرینہ ثقافتی، مذہبی اور برادرانہ تعلقات ہیں،مضبوط تعلقات دونوں ممالک کی ترقی کیلئے اہم ہیں۔ نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ایرانی وزیر ارجہ حسین امیر عبد اللہیان کے درمیان وزارت خارجہ میں ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر دونوں فریقوں نے امن اور خوشحالی کے مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے باہمی احترام کی بنیاد پر اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے اجتماعی نقطہ نظر کی بنیاد پر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ بعد ازاں ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگراں وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران اور پاکستان کے مضبوط تعلقات دونوں ملکوں کی ترقی کیلئے اہم ہیں، پاکستان ایران سے تعلقات اور مختلف شعبوں میں وسعت دینے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کےخلاف مشترکہ کارروائیوں کی ضرورت ہے، دہشت گردوں کے خلاف ایک مضبوط لائحہ عمل ضروری ہے۔ نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ دونوں ممالک کا مشترکہ چیلنج ہے۔ نگراں وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران اور پاکستان میں مقیم افراد کو ایک ہی قوم سمجھتے ہیں، پاکستان کے ساتھ اہم برادرانہ تعلقات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ جغرافیائی تعلقات بھی اہمیت کے حامل ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی ہمارے لیے مقدم ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان اور ایران کے مشترکہ سرحدی خطے اور ایرانی اور پاکستانی علاقوں میں دہشت گرد موجود ہیں جنہیں تیسرے ملک کی مدد اور رہنمائی حاصل ہے۔ حسین امیر عبد اللہیان نے کہا کہ پاکستان اور ایران دہشت گردوں کو کوئی موقع نہیں دیں گے، دہشت گردوں نے ایران کوبہت نقصان پہنچایا، بارڈر پر موجود دہشت گرد دونوں ممالک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے بہت کم وقت میں موجود صورتحال پر قابو پایا، پاکستان، گیس پائپ لائن پر چین اور روس سے مالی مدد لے سکتا ہے۔ اپاک ایران گیس پائپ لائن پر جرمانہ کے حوالہ سے خبریں غلط ہیں۔ واضح رہے کہ ایرانی وزیر خارجہ ایسے موقع پر پاکستان کے دورہ پر آئے جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات گزشتہ کچھ عرصہ سے کافی کشیدہ ہوئے۔ دونوں ملکوں میں کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 17 جنوری کو ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میںحملہ کے نتیجہ میں دو معصوم بچے جاں بحق اور تین بچیاں زخمی ہوگئی تھیں۔ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے 48 گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر پاکستان نے 18 جنوری کی علی الصبح صوبہ سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا جس میں متعدد دہشت گرد مارے گئے تھے۔ 19 جنوری کو پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ان کے ایرانی ہم منصب امیر عبد اللہیان کے درمیان ان واقعات کے بعد دوسرا ٹیلیفونک رابطہ ہوا تھا۔
نئے کرنسی نوٹ لانے کا فیصلہ خوش آئند
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس بار شرح سود کے بارے میں جو اعلان کیا اس کے ساتھ ہی تمام مالیت کے نئے کرنسی نوٹ لانے کے فیصلہ سے بھی آگاہی دی جسے یقینا بڑا قدم کہا جاسکتا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ مہنگائی میں آنے والے دنوں میں مزید کمی کی نوید دی گئی۔ مرکزی بینک کے سربراہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نئے نوٹوں کو عالمی سیکیورٹی فیچرز کے ساتھ چھاپا جائیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس باب میں فریم ورک پر کام شروع کردیا گیا ہے جو مارچ تک مکمل کرلیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے نوٹوں کے اجراءکا کام اپریل سے شروع ہوسکتا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پرانے ڈیزائن کے کرنسی نوٹوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ کرنسی نوٹ کی تبدیلی بھارت کی طرز پر یکدم نہیں کی جائے گی۔ کرنسی نوٹوں کی تبدیلی بین الاقوامی مشق کے تحت 15 تا 20 برس بعد دہرایا جانے والا عمل ہے۔ اس کا ڈی مونیٹائزیشن سے تعلق ہے۔ مرکزی بینک ملک میں نوٹ جاری کرنے والا ادارہ ہے اور اس کے بنیادی مقاصد میں اعلیٰ درجے کے بینک نوٹوں کی ملک میں فراہمی شامل ہے۔ یہ گندے اور ناکارہ نوٹوں کو واپس لے کر ضائع کرتا اور ان کی جگہ نئے نوٹوں کا اجراءبھی کرتا رہتا ہے۔ مبصرین کے خیال میں کرنسی ڈی مونیٹائزیشن کے امکانات اس صورت میں بڑھ جاتے ہیں جب ملک دشمن قوتوں، بیرونی ایجنٹوں یا بعض اندرونی عناصر کی طرف سے جعلی نوٹ پھیلائے گئے ہوں۔ پاکستان میں کئی عشرے قبل اس وقت کا سب سے بڑا (سو روپے کا)کرنسی نوٹ واپس لینے کا اقدام کیا جاچکا ہے۔ بھارت میں بھی کرنسی نوٹ منسوخ اور تبدیل کیے گئے ہیں۔ کالا دھن کنٹرول کرنے کیلئے بھی اس قسم کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ وجہ جو بھی ہو عوام کو ملکی مفاد میں حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔
پاک ایران گیس منصوبہ وقت کی اہم ضرورت
ایسے وقت میں جب پاکستان گمبھیر معاشی بحران کی زد میں ہے ، توانائی کی شدید قلت ہے اور پیٹرول، گیس اوربجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جارہی ہیں، ایران نے نوٹس دے دیا ہے کہ پاکستان پاک ایران گیس منصوبہ پر عملدرآمد کیلئے فوری اقدامات کرے ورنہ اس کے خلاف بین الاقوامی ثالثی فورم میں 18 ارب ڈالرز ہرجانے کا مقدمہ دائر کردیا جائے گا۔ ایران نے پاکستان کو اپنے حصہ کی 81 کلو میٹر گیس پائپ لائن بچھانے کیلئے مزید 180 دن کی مہلت بھی دی ہے۔ ایران اپنے حصہ کی پائپ لائن پہلے ہی بچھا چکا ہے جبکہ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان گوادر سے ایرانی سرحد تک پائپ لائن نہیں تعمیر کرسکا۔ پاک ایران گیس منصوبہ 2014 سے تاخیر کا شکار چلا آرہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ بات چیت کیلئے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں تو توقع ہے کہ ایرانی ٹیم بھی فروری میں پاکستان آئے گی اور پاکستانی حکام سے تبادلہ خیال کے ذریعے گیس منصوبہ پر کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ عراق اور ترکی ایران پر امریکی پابندیوں سے استثنیٰ حاصل کرکے ایرانی گیس طویل عرصہ سے خرید رہے ہیں۔ بھارت کو بھی اس معاملہ میں چھوٹ حاصل ہے مگر پاکستان ایران سے کئی سال قبل کیے جانے والے معاہدہ کے باوجود ایرانی گیس حاصل نہیں کرسکا۔ بین الاقوامی ثالثی عدالت اگرچہ ایران پر امریکی پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتی مگر امریکی دباﺅ کی وجہ سے اس کا فیصلہ پاکستان کے خلاف بھی آسکتا ہے اس لیے یہ معاملہ اتنا آسان نہیں۔ اسلام آباد میں پاکستان کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ گیس منصوبہ پر عملدرآمد کیلئے حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے جس پر ایرانی حکام سے مزید مشاورت ہوگی۔ پاکستان اور ایران کی اعلیٰ سطحی قیادت کے درمیان بھی اس سلسلہ میں رابطے قائم ہیں۔ ایرانی ماہرین کی ٹیم سے تبادلہ خیال کے بعد مناسب حکمت عملی کے تحت گوادر سے ایرانی سرحد تک 81 کلو میٹر گیس پائپ لائن مکمل کرنے کا اصولی فیصلہ بھی کیا جاچکا ہے۔ امریکہ کی رضا مندی حاصل ہوگئی یا امریکی پابندیوں سے بچنے کا طریقہ تلاش کرلیا گیا تو پائپ لائن پر کام شروع ہوجائے گا جسے بعد میں نواب شاہ تک توسیع دی جائے گی۔ لیکن خدانخواستہ معاملہ کے نازک پہلوﺅں سے بچنے کا راستہ نہ نکل سکا تو پاکستان کو آئی پی معاہدہ کی خلاف ورزی پر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا اور دو مسلم ممالک کے درمیان تعلقات بھی متاثر ہوں گے معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے پاکستان کو توانائی کی اشد ضرورت ہے۔ ایران سے گیس کا حصول اس سلسلہ کی بنیادی کڑی ہے۔ ایرانی گیس ملنے سے صنعتوں کا پہیہ تیزی سے رواں ہوسکتا ہے جس سے برآمدات میں اضافہ ہوگا اور تجارتی خسارہ میں بھی کمی آئے گی۔
خسارہ میں چلنے والے اداروں کی نجکاری ناگزیر
خسارہ میں چلنے والے سرکاری ادارے ملک کے معاشی مسائل کا یقینی طور پر ایک بنیادی سبب ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز ان میں سرفہرست ہیں۔ پچھلی صدی میں جب سوشلزم کی تحریک اپنے عروج پر تھی، پاکستان میں بھی تمام نجی کاروبار، صنعتوں، کارخانوں اور بینکوں کو قومیانے کا تجربہ کیا گیا لیکن اس کے نتائج نہایت تلخ رہے لہٰذا ڈی نیشنلائزیشن کا عمل ناگزیر ہوگیا چنانچہ تمام بینک اوربیشتر دوسرے ادارے ان کے مالکان کو واپس کیے گئے۔ یوں ان اداروں کے حالات میں بہتری آئی اور معاشی بحالی کا سفر ازسر نو شروع ہوا۔ تاہم سرکاری تحویل میں چلنے والے جن اداروں کی نجکاری نہیں ہوسکی ان میں سے بیشتر خسارہ میں ہیں اور عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی قرضوں کا ایک بڑا حصہ برسوں سے ان کا نقصان پورا کرنے پر خرچ ہورہا ہے۔ ان اداروں کی نجکاری پچھلی کئی حکومتوں کے ایجنڈا میں شامل رہی لیکن عوامی اور سیاسی سطح پر منفی ردعمل کے خوف سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی
۔ تاہم پی ڈی ایم کی حکومت کے فیصلہ کے مطابق نگراں حکومت خسارہ میں چلنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ نگراں وفاقی وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے رائٹرز سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ اس ضمن میں 98 فیصد کام ہوچکا ہے اور بقیہ دو فیصد کاموں کی منظوری کابینہ سے لی جانی ہے۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ کابینہ یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ پی آئی اے کو بذریعہ ٹینڈر بیچنا ہے یا بین الحکومتی معاہدہ کے ذریعے جبکہ نجکاری کے عمل سے قریب دو ذرائع کے مطابق ارنسٹ اینڈ ینگ کی 1100 صفحات کی رپورٹ کے تحت ایئر لائن کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے کو دینے کے بعد خریداروں کو مکمل انتظامی کنٹرول کے ساتھ 51 فیصد حصص کی پیشکش بھی کی جائےگی۔ پی ڈی ایم حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ آئی ایم ایف معاہدہ پر دستخط کے چند ہفتے بعد ہی کرلیا تھا۔ بعد ازاں 8 اگست کو منصب سنبھالنے والی نگراں حکومت کو سبکدوش ہونےوالی پارلیمان نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کیلئے ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا تھا۔ فی الحقیقت خسارہ میں چلنے والے تمام سرکاری اداروں کی نجکاری معاشی بحران سے نکلنے کیلئے ناگزیر ہے۔