انسانیت کا منتظر کشمیر

یہ نہ بھولیں، کشمیر اب بھی ایک متنازعہ علاقہ ہے اور انسانیت کامنتظر ہے۔
بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مذمت کرنے کے لیے آپ کو پاکستانی یا مسلمان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو صرف انسان بننے کی ضرورت ہے۔
ضمیر اپنی جگہ، 5 اگست 2019 سے رونما ہونے والے واقعات کا سلسلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہندوتوا نظریہ کام کر رہا ہے جو کہ بذات خود میں فسطائیت کا حامل ہے۔ اس نقطہ نظر سے مودی حکومت نہ صرف جمہوری بلکہ انسانی بنیادوں کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ بھارتی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ ایک حتمی فیصلہ ہے۔
مودی سرکار کے الٹرا نیشنلسٹ اپروچ کا عکس، بھارت کی منسوخی کا جواز یہ ہے کہ یہ کشمیر کے لوگوں کو سرکاری پروگراموں تک رسائی کے قابل بنائے گا جس میں تعلیم اور معلومات کا حق شامل ہے، مواصلاتی لائنوں کی جبری بندش اور خطہ میں کرفیو کے نفاذ سے منسوخ ہو جائے گا۔
بھارتی حکومت کی جانب سے منسوخی کے لیے دیئے گئے اس خود ساختہ جواز کو اجاگر کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ فیصلہ کشمیریوں کی بھلائی کے لیے لیا گیا تھا اور کرفیو کا نفاذ صرف اور صرف کسی ناخوشگوار یا غیر مطلوبہ واقعہ کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا، تو کیا ایسا نہیں ہے؟ امکان اتنا ہی متعلقہ رہتا ہے جیسا کہ یہ 2 سال پہلے تھا۔ یہ صرف ستم ظریفی نہیں ہے بلکہ بیک وقت غیر انسانی اور المناک بھی ہے۔ اگر منسوخی کو کشمیریوں کے لیے ایک جامع نقطہ نظر قرار دینے کا بھارتی دعویٰ مناسب ہے، تو ان کی وزارت داخلہ نے اس ایکٹ سے پہلے وادی میں ہزاروں سیکیورٹی دستوں کو متحرک کرنے کی منظوری کس چیز پر دی؟ کیا یہ منصوبہ ان کی دانشمندی کے مطابق خطہ کو مرکزی دھارے میں لانے کا تھا یا کشمیریوں کی شناخت چھین کر ان کے وجود کو محض تعداد تک محدود کرنے کا تھا؟ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس قسم کی ذہنیت تقریباً 8 ملین لوگوں کو 2 سال سے زیادہ عرصے سے نظربند اور الگ تھلگ رکھتی ہے؟ ان میںعورتیں، بچے، بوڑھے سمیت سب لوگ شامل ہیں لیکن سب سے بڑھ کر وہ انسان ہیں۔
سری نگر سے لے کر کپواڑہ، گاندر بل، جموں سب کشمیریوں کے تن من دھن اور قلب کی پکار پاکستان، منزل و مقصد و مدعا پاکستان، شاہ ہمدان کے پیروکار اس پاکستان پر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو بے تاب۔
ڈوگرہ راج، برہمن راج، نہرو راج، گاندھی خاندان راج، مودی راج، سب کے سب ناکام و نامراد ہوئے اور کشمیری قوم کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آسکی۔
سید علی گیلانی امر ہوگئے پاکستان کے خواب دیکھتے دیکھتے۔ کیا ہم اس دل و جان سے مر مٹنے والی قوم کشمیر کے سپنوں کو حقیقی رنگ دینے میں شب و روز مصروف عمل ہیں؟ یقیناً نہیں۔
کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے، عصمت دری ہوتی ہے اور ہم نے اب اس کو معمولات زندگی سمجھ لیا ہے۔
ہماری نالائق سفارت کاری سے تو سکھ بازی لے گئے، جنہوں نے خالصتان کی آواز کو یورپ اور کینیڈا تک پھیلا دیا اور متعدد ممالک میں خالصتان کےلیے نمائشی پولنگ کا انعقاد کروا دیا۔ یقیناً پاکستانی حکومت، پاکستانی سفارت کار اور یورپ اور امریکا میں مقیم پاکستانی اور کشمیری، کشمیر کاز اور بھارت کے مکروہ چہرے کو نمایاں کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کےلیے تمام فورمز پر آواز اٹھائیں۔ یورپ میں کشمیر میڈیا ہاو¿س اور کشمیر میگزین کا اجرا انتہائی ضروری ہے۔ یورپی یونین میں کشمیر کے موقف کو پیش کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ تجارتی، سیاسی، مالی اور دفاعی مفادات کی خاطر کشمیر کے کاز کو پس پشت ہرگز نہیں ڈالنا ہے۔ کشمیر کے ننھے ننھے بچے ہماری راہ تک رہے ہیں۔ تمام کالجز اور یونیورسٹیوں میں کشمیر کی تحریک آزادی کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جائے۔
پاکستان کے تمام سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک کا قیام عمل میں لایا جائے اور کشمیر کی تحریک آزادی کے متعلق نمائش، کانفرنس، مشاعرے اور سیمینارز منعقد کیے جائیں۔ کشمیر اور کشمیریوں کے جذبہ حریت کو ماند نہ پڑنے دیا جائے۔ وادی کشمیر کے پرندوں اور جھرنوں کی صدائیں بہشت سے کم نہیں۔ بہشت نما کشمیر کو کفر کے غلبے سے آزاد کروانا ہے۔ ہمارے ادیب، شاعر، کالم نگار، واعظین، مبلغین، علمائے کرام سب کے ساتھ کشمیر کی آواز کو اپنے اپنے انداز میں پیش کریں اور مقید اور مظلوم کشمیریوں کی ڈھارس بندھائیں۔
حق پر مبنی جذبے قدرت کی عطا ہوتے ہیں اور جھوٹے اقتدار ان جذبوں کو پامال نہیں کرسکتے۔ چنار وادی کی حریت کا جذبہ قدرت کی آواز ہے اور قدرت کشمیریوں کی پشت پر کھڑی ہے اور جب چاہے گی سومناتی راج اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ ہمارا کردار تو بس قدرت کی اس حمایت یافتہ حریت کشمیر کے جذبے کی شمع کو جلائے رکھنا ہے۔ آئیے مقبوضہ کشمیر کے معصوم شہریوں کی اخلاقی، سفارتی، سیاسی اور مالی امداد کریں اور خصوصاً آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کو عظیم تر بنائیں اور قائد کے اٹوٹ انگ کے سپنے کو شرمندہ تعبیر کریں۔

منسوخی کے ذریعے، بھارت نے نہ صرف ریاست جموں و کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا ہے بلکہ منسوخ شدہ آرٹیکل 370 کے تحت کشمیریوں کو ان کی شناخت سے بھی محروم کر دیا ہے۔
ریاست جموں و کشمیر کو اپنا ایک آئین، ریاستی جھنڈا اور ریاست کے داخلی انتظام پر خودمختاری کی اجازت تھی۔ یہ آرٹیکل 370 آرٹیکل 35 اے کے ساتھ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ جموں کشمیر کے باشندے باقی بھارت سے الگ قوانین کے تحت رہتے ہیں، ان میں شہریت، جائیداد کی ملکیت اور بنیادی حقوق شامل ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ اس طرح کی نفرت اور مجرمانہ سلوک کر کے بھارت دنیا کو واضح پیغام دے رہا ہے کہ وہ انہیں نہ صرف غیر اہم سمجھتا بلکہ وہ متنازعہ علاقے پر مزید اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے جارحانہ اقدامات جاری رکھے گا۔
پاکستان تنسیخ کے دن سے سفارتی محاذ پر کام کر رہا ہے۔عالمی برادری کی توجہ اس معاملہ کی حساسیت کی طرف مبذول کرانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توجہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں طاقت کے بڑھتے ہوئے استعمال اور بھارت کے جرائم کی طرف دلائی اور بھارتی حکام کو ان کے غیر انسانی اقدامات کا جوابدہ ٹھہرایا۔ پاکستان کے بارے میں جھوٹے الزامات اور دعوے بی جے پی کی قیادت کے مذموم ہتھکنڈے ہیں تاکہ ان کی امتیازی، کشمیر مخالف اور اقلیت مخالف پالیسیوں پر بڑھتی ہوئی ملکی اور بین الاقوامی تنقید سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد، اسلامو فوبیا کے بدقسمت تصور نے مودی کے لیے حق خود ارادیت کی کشمیریوں کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی جگہ پیدا کی۔ یہ مودی سرکار نے جان بوجھ کر کیا، تاکہ اپنی انتہائی قوم پرست پالیسیوں کو تیز کیا جا سکے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو غیر قانونی قرار دیا جا سکے۔ بھارت کی جانب سے کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دینے کی لامتناہی کوششوں کے باوجود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ اب بھی جموں و کشمیر کو متنازعہ علاقہ سمجھتی ہے اور اسے قراردادوں کے تحت حل کرنے کی ضرورت ہے۔کرفیو اور لاک ڈاو¿ن سے قطع نظر کشمیری ہر ممکن طریقے سے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ 26 جنوری 2022 کو دنیا بھر کے کشمیریوں نے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منایا اور اس تنازع کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ بھارتی حکومت بڑھتے ہوئے مظالم اور طاقت کے استعمال کے باوجود انہیں خاموش کرانے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ کشمیر کی علیحدگی ایک ڈومینو اثر پیدا کرے گی، جس سے کئی علاقائی، سیاسی اور مذہبی علیحدگی پسند رجحانات جنم لیں گے جو بنیاد کو کمزور کر دیں گے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والی سا لمیت، کشمیر کی تزویراتی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، بھارت اس علاقے پر قبضہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ لہٰذا، کشمیر کو خصوصی پوزیشن دینے کے بجائے، بی جے پی نے، بدلے میں، آرٹیکل 370 کو واپس لینے اور کشمیر کی متعلقہ خود مختاری کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہندو قوم پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور وبائی امراض کے ایک اضافی چیلنج کے درمیان، بھارتی حکومت اب بھی کشمیر میں اپنے ایجنڈے کو تقویت دینے کے لیے مسلم مخالف جذبات کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ پاکستان نے بھارت کے آرٹیکل 370 کو غیر قانونی قرار دینے کے اقدام کی مذمت کی، وزیراعظم عمران خان سے لے کر عام آدمی تک ہر پاکستانی نے کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ ملکی قیادت نے اقوام متحدہ سمیت ہر پلیٹ فارم پر عالمی برادری سے مسئلہ حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاک بھارت تعلقات اور تنازعہ کشمیر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بات چیت کی میز پر پہنچنے اور علاقائی استحکام کو یقینی بنانے سے پہلے تنہائی کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں بھارت کے مظالم اور مجرمانہ سرگرمیاں اور خطہ بالخصوص پاکستان میں دہشت گردی کی مالی معاونت جاری ہے جبکہ ہر کشمیری انسانیت اور جینے کے حق کا منتظر ہے۔ یہ وقت ہے کہ دنیا خاموش چیخوں کو سنے اور مسئلہ کشمیر میں انسانیت کی بحالی پر توجہ دے۔
٭٭٭