ایک اور غیر مستحکم حکومت؟

سیاسی بحران کی وجہ سے ملک معاشی لحاظ سے بھی غیر مستحکم ہورہا ہے۔

خدا خدا کرکے ملک میں عام انتخابات کا مرحلہ تکمیل کو پہنچا۔ انتخابات جیسے ہوئے وہ سب کو معلوم ہے، اس پر زیادہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اتنا ہی کہوں گا کہ نہایت مایوس کن تھے۔ جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا اور جو نہیں ہونا چاہیے تھا وہ بہت زیادہ ہوا۔ انتخابات اس قسم کے ہوئے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس سے ناخوش ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کو اتنی نشستیں دی گئیں کہ وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آئے اور وہ انتخابات سے خوش بھی نہ ہوں۔
اس تمام تر ”کھیل“ میں نقصان صرف ملک اور قوم کا ہو رہا ہے۔ عوام کو بھی ایک عجیب مخمصے میں ڈال دیا ہے، نہ کسی کی حکومت بننے جارہی ہے اور نہ ہی کوئی جماعت برسر اقتدار آرہی ہے۔ اور جو حکومت بنے گی وہ بہت ہی جماعتوں کا ایک ملغوبہ سا ہوگا، جو ہر وقت بلیک میل ہوتا رہے گا۔ ایسی حکومت بنے گی جس میں بہت سی سیاسی جماعتیں ہوں گی۔ صرف مخلوط ہی نہیں انتہائی مخلوط حکومت بنے گی، جو چند اراکین اسمبلی کی بیساکھیوں پر کھڑی ہوگی اور ہر وقت وہ بلیک میل کرتے رہیں گے۔ دو چار ارکان اسمبلی بھی نکل گئے تو حکومت دھڑام سے گر جائے گی۔
ایسی حکومت فیصلہ سازی کی صلاحیت سے تقریباً محروم ہوگی اور اگر کوئی فیصلہ کرنے لگے گی تو کئی جماعتوں اور کئی اراکین کو راضی کرنا پڑے گا اور انہیں خوش رکھنا پڑے گا اور اس سے بھی بڑی اور بری بات یہ ہے کہ وزارتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی، کیونکہ ہر سیاسی جماعت کو وزارت دینی پڑے گی، چاہے کوئی چھوٹی جماعت ہے یا بڑی، اسے خوش کرتے کرتے وزارتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی اور وزارتوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی ملکی خزانے پر بوجھ بھی اتنا ہی زیادہ پڑے گا۔ ہمارا کمزور معیشت والا ملک اتنے بڑے بوجھ کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ایسی حکومت جو ملک کےلیے فیصلے نہ کرسکے، ایسی حکومت کا کیا فائدہ؟ اگر حکومت کوئی فیصلہ کرنے لگے گی تو جماعتیں جو حکومت سازی میں اس کے ساتھ شریک ہوں گی وہ ناراض ہونے لگیں گی۔ ہر جماعت کو ایک ایک فیصلے کےلیے راضی کرنا انتہائی وقت کا ضیاع اور ملکی ترقی کےلیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوگا۔ ایسی حکومت زیادہ دیر چل بھی نہیں سکتی اور حکومت کا مدت پوری کرنا خطرے میں رہے گا۔ کیونکہ یہ حکومت جو مختلف سیاسی جماعتوں کے سہارے قائم ہوگی، اگر دیگر کوئی جماعت ان جماعتوں کو اپنی طرف متوجہ کرلے تو وہ جماعتیں دوسری طرف چلی جائیں گی اور حکومت گرجائے گی۔ جیسے پی ٹی آئی کی حکومت میں ہوا تھا، کیونکہ وہ بھی کئی سیاسی جماعتوں کے سہارے کھڑی تھی۔ جیسے ہی پی ڈی ایم کی جماعتوں نے ایم کیو ایم اور چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملایا تو تحریک انصاف کی حکومت گرگئی۔ ایسے ہی یہ حکومت بھی بیساکھیوں کے سہارے کھڑی رہے گی، جیسے ہی کسی نے بیساکھی کھینچی تو یہ حکومت ختم ہوجائے گی۔
ایسی حکومتوں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں بھی زیادہ چلائی جاتی ہیں اور چلانے کی کوشش کی جاتی ہے، کیونکہ جو جماعتیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں انہیں حکومت کرنے کا شوق تو ہوتا ہے اور انہیں اپوزیشن میں سکون نہیں ملتا۔ اس لیے وہ کوشش کرتی ہیں کہ حکومت میں شامل کسی سیاسی جماعت کو اپنے ساتھ ملا کر نمبرز پورے کیے جائیں اور اس حکومت کو ختم کرکے اپنی حکومت قائم کرلی جائے۔ یوں ایسی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں کی کوشش بھی کی جائے گی، جس کی وجہ سے سیاسی بحران پیدا ہوگا۔
سیاسی بحران تو اب بھی ملک میں بہت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے معاشی لحاظ سے بھی ملک مستحکم نہیں ہورہا۔ لیکن جب اس قسم کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کوششیں کی جائیں گی تو پھر سیاسی بحران مزید شدت اختیار کرجائے گا اور یوں معاشی بحران بھی اس کے ساتھ ساتھ شدید ہوتا چلا جائے گا۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ سیاسی جماعتوں کو عوام کے ووٹوں پر منتخب کیا جاتا اور عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر حکومت قائم ہوتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ملک میں ایک سیاسی جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہوتی اور وہ اپنی حکومت قائم کرکے فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتی، اپنے بل بوتے پر فیصلے کرتی، جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی بحران ختم ہوتا اور معاشی بحران سے بھی ملک کو نجات ملتی اور ملک ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا۔