تہذیبوں کا ٹکراو

پاکستانی معاشرہ اور تعلیم و تربیت کا فقدان
اگر تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو معاشرہ ترقی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتا۔

کسی بھی قوم کی شناخت اس کی تہذیب اور تعلیم و تربیت سے ہوتی ہے۔ آج پاکستان سمیت تقریباً تمام ہی مشرقی ممالک میں مغربی ممالک کی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مغربی تعلیم سے آراستہ افراد کےلیے ملازمت کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ تربیت معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اور تربیت نہ ہونے سے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔ ماضی میں بڑے بزرگ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے تھے اس کے باوجود بھی اپنے بچوں کی اچھی تربیت کیا کرتے تھے۔ بچوں کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے کے آداب پر خاص توجہ دیتے تھے۔ بچوں کو بتایا جاتا تھا بڑوں کا ادب کیسے کرنا ہے۔ لیکن اب معاشرے میں ان تمام باتوں کی کمی واضح نظر آتی ہے۔
ہماری دنیا کروڑوں برسوں سے قائم ہے۔ اس میں بنی نوع انسان مختلف منازل طے کرتا رہا ہے۔ انسانوں کے مل جل کر رہنے سے مختلف معاشرے اور تہذیبیں قائم ہوتی رہی ہیں اور ختم بھی ہوتی رہی ہیں۔ اب بھی اس موجودہ دنیا میں کئی قسم کی تہذیبیں موجود ہیں، مثلاً مغربی تہذیب، چینی تہذیب، اسلامی تہذیب۔ کچھ تہذیبیں تو ایسی ہیں جن کا نام و نشان تک صفحہ ہستی سے مٹ گیا جیسے فرعون مصر کی تہذیب، جمہوریہ روم کی تہذیب۔ ان کی کئی روایا ت تو چل رہی ہیں لیکن یہ مکمل حالت میں معدوم ہیں۔ کئی تو ایک دوسرے سے برتری لے جانے میں باقاعدہ برسرپیکار ہیں۔
یہاں ایک بات بہت قابل غور ہے کہ جب کبھی بھی تہذیب کا نام لیا جاتاہے تو اس سے مراد کوئی خاص ملک نہیں ہوتا۔ جیسے کہ اب اگر ہم مغربی تہذیب کا نام لیں تو ہمارے ذہن میں یورپ آتا ہے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے ذہن میں پالا پوسا ایک آئیڈیا شاید کئی صدیوں سے موجود تھا کہ پورے یورپ کی چھوٹی چھوٹی بادشاہی ریاستیں مل کر ایک ایسی یوٹوپین ریاست بنائیں جس میں سیاست کا مقام صفر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے اندر نیشنلزم ہونے کے باوجود نہیں ہے، یورپ میں کوئی گولی نہیں چلتی، وہاں کوئی بم نہیں پھٹتا۔ جب کہ عوام اور حکومت مل کر ایک مقصد پر کام کرتے ہیں جسے اکانومی کہا جاتا ہے۔ بیلجیم کے لوگ بیلجین ہیں اور ساتھ میں یورپی بھی، جرمنی کے عوام جرمن بھی ہیں اور یورپی بھی۔ اسی تجربے کو امریکا کے بابائے قوم لیفٹیننٹ جنرل جارج واشنگٹن اور ان کی اسٹیبلشمینٹ نے بھی کاپی کیا، اور باقی نئے آباد شدہ یا برباد شدہ جزائر یعنی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا میں بھی آزمایا گیا اور یہ تجربہ نہ صرف کام کرگیا بلکہ ابھی تک اس کا کام جاری و ساری ہے۔ تو جب کبھی بھی مغربی تہذیب کا نام آئے تو اس سے مراد یہ سارے ممالک ہی ہوں گے۔
سو اس ساری بات سے یہ چیز تو واضح ہوگئی کہ تہذیب سے مراد کوئی ایک خاص ملک نہیں ہے۔ ایک ہی تہذیب کئی ممالک میں رائج ہوسکتی ہے۔ تہذیب کو متاثر کرنے میں جس چیز کا رول سب سے زیادہ ہے، وہ مذہب ہے۔ مطلب ایک تہذیب یہ فیصلہ کرسکتی ہے کہ وہ مذہب کون سا اختیار کرے، یا بالکل ہی اختیار نہ کرے۔ مذہب کو مکمل طور پر اختیار نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ معاشرے میں یا تہذیب میں اس کا کردار ہی نہیں ہے۔ قدیم ترین مصری تہذیب میں فرعون (جو اپنے وقت کے بادشاہ ہوتے تھے) اپنے آپ کو خدا کہلواتے تھے اور یہی ان کا مذہب اور لائف اسٹائل تھا۔ انہیں بھی جب کوئی اللہ کا بندہ دعوت دیتا تھا تو وہ اسے اپنی بادشاہت، اپنے ایجاد کردہ مذہب، ملک و قوم اور لائف اسٹائل کےلیے چیلنج سمجھتے تھے۔ اسی طرح قدیم یونانی جمہوریہ کا اپنا ایک مذہب تھا، جو بہت سارے دیوی، دیوتاو¿ں اور کئی قسم کی افسانوی کہانیوں پر مبنی تھا۔ اصل تکرار یہ ہے کہ کسی بھی دور میں تہذیب وتمدن کی پہلی اکائی ہمیشہ سے مذہب ہی رہا ہے۔
موجودہ دور میں جب مختلف تہذیبیں وجود میں آئیں تو ظاہر ہے، جب کبھی بھی کسی ایک کا دوسری سے ٹکراو¿ ہوگا تو اس میں مذہب بھی ضرور آئے گا۔ اور اس میں ایک کا لائف اسٹائل دوسری سے ضرور ٹکرائے گا۔ ایک کو لگے گا کہ اس کا مذہب، ملک و قوم اور لائف اسٹائل سبھی خطرے میں ہیں۔ مثال کے طور پر جب یورپ کو اپنی تہذیب خطرے میں محسوس ہوتی ہے، تو وہ کبھی پین اسلام، بنیاد پرست اسلام کے سلوگن بلند کرتا ہے تو کبھی اسلام کو دہشت گردی سے منسلک کرتا ہے۔ اس ٹاپک پر ابھی اکتوبر 2020 میں کی گئی فرانس کے صدر میکرون کی تقریر بہت معنی خیز ہے جس میں انہوں نے ڈائریکٹ اسلام ہی کو ٹارگٹ کیا ہے اور کہا کہ اسلام خطرے میں ہے۔ حالانکہ شائد وہ یہ کہنا چاہتے ہوں گے کہ ہماری تہذیب خطرے میں ہے، لیکن بات بالکل تین سو ساٹھ ڈگری مخالفت میں کی گئی۔ اسی طرح کی ایک تقریر سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی کرچکے ہیں، جس میں انہوں نے چائنیز کو اپنے لائف اسٹائل کےلیے چیلنج قرار دیا۔ مغرب کا شروع سے ہی ایک موقف رہا ہے کہ وہ ہر ایک کو اپنی عینک سے دیکھنے کے عادی رہے ہیں جو اس میں فٹ آگیا وہی بندہ ہے باقی سب دہشت گرد وغیرہ۔ فرانس نے ہی فادر آف دی نیشن جارج واشنگٹن کی مدد کی تھی اور انہوں نے انگلینڈ کو امریکا سے مار بھگایا تھا۔ فریڈم آف اسپیچ بھی فرانس سے امپورٹ ہوکر امریکا کی راج دھانی پہنچی تھی جس کے بارے میں صدر ٹرمپ فرماتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑ ی غلطی کی۔ مطلب صیاد اپنے ہی دام میں آگیا ہے۔
اب یہاں پر ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ مغرب کی تہذیب حکومتوں کے کنٹرول میں ہے لیکن ہمارے ہاں یہ کام عوام کو کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ہماری حکومتوں کی خواہش کچھ اور ہے۔ یہیں سے تضاد پیدا ہوتا ہے، پھر فساد پھیلتا ہے، جو کبھی تو جلسے جلوسوں کی شکل میں اور کبھی اس سے بھی سخت لہجے میں سامنے آتا ہے۔ پھر بیچ میں بیرونی قوتیں پڑ جاتی ہیں اور پرائی جنگیں ہماری ہوجاتی ہیں۔ اس کی قیمت بھی عوام کو ہی چکانا پڑتی ہے۔
پھر مغربی میڈیا کا رول اس میں بہت اہم ہے جو ان کی تہذیب کو پھیلانے کےلیے بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پھیلانا نہیں بلکہ ہمارے ہاں لوگ اتنے امپریس ہیں کہ اسے یہ اپنانا شائد امارت اور عزت سمجھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ اس قسم کا رویہ تقریباً تمام ایسے ممالک میں موجود ہے جو کسی نہ کسی طرح مغربی کالونی رہے ہیں اور غلامی کو بھگتایا ہوا ہے۔
ہمارے ہاں اس کے اظہار اکثر ہوتا ہے، مثلاً مختلف دن منانا، جن کا ہمارے ساتھ دور دور کا کوئی تعلق نہیں، جیسے کہ ویلنٹائن ڈے، لیبر ڈے، برتھ ڈے۔ برتھ ڈے کو ہی لے لیجیے، یہ سب سے پہلے مصری فراعین نے شروع کیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ صرف بادشاہوں یا فرعونوں تک محدود تھا۔ وہاں سے یہ رومنز میں آیا۔ رومنز نے ہی سب سے پہلے موم بتیاں لگانے کا رواج اپنایا کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اس سے بدروحیں بھاگتی ہیں۔ پھر جب روم عیسائی ہوا تو یہ ایونٹ بھی عیسائی مذہب کا حصہ بن گیا۔ لیکن ابھی تک یہ عوام تک نہیں پہنچا تھا۔ یہ کام آخرکار کیپٹلزم نے کیا۔ جرمن بیکری والوں نے اس کےلیے کیک بنایا اور اسے عوام کو بیچنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ بادشاہوں کا یہ ایونٹ ایک عام شخص کی پہنچ تک آگیا اور مغربی کلچر اور لائف اسٹائل کا لازم جزو بن گیا۔ لیکن حیرانگی اس بات پر ہے کہ آج یہ ہمارے کلچر میں اتنا عام ہے جیسے کہ ہم تو اس کے بغیر پیدا ہی نہیں ہوئے۔ اوپر سے میڈ مائی ڈے اسپیشل کے چکر میں اب فیس بک مجھے ان لوگوں کی بھی برتھ ڈے بتا رہا ہے جن سے میں دس سال میں کبھی نہیں ملا۔ کیپیٹلزم ہر جگہ جیت جاتا ہے۔
بہرحال تہذیبوں کی اس جنگ کی بحث کےلیے ایک نشست ناکافی ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنا دامن اس جنگ سے کیسے بچانا ہے؟
پاکستان میں ہر دوسرا شخص مغربی ممالک کی باتیں کرتا ہے۔ ہر چیز میں مغرب کی مثال دی جاتی ہے۔ ملک کے حکمران بھی اپنی تقاریر میں سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لینے کےلیے بھی مغرب کی ہی مثالوں کا سہارا لیتے ہیں۔
پاکستان آزاد ہونے کے بعد ملک کو درپیش دیگر مسائل کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ معاشرے کی تعلیم و تربیت تھی۔ بدقسمتی سے اس ملک میں تعلیم کو منافع بخش کاروبار بنالیا گیا لیکن تربیت کو کوسوں دور چھوڑ دیا گیا۔ ملک میں مغربی تعلیم کے فروغ کےلیے بڑے بڑے اسکول کھول دیے گئے۔ ان بڑے اسکولوں میں بھاری بھرکم فیسیں تو وصول کی جانے لگیں لیکن طلبا کی تربیت کہیں ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی نسل نو سماجی برائیوں اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔
بچوں کی شخصیت میں اخلاقی بحران اور تہذیبی اقدار کی قلت کی سب سے بڑی وجہ ان کے والدین کی غفلت ہے۔ ماں باپ اپنے مسائل میں مصروف ہیں۔ تیزی سے دوڑتی زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے میں وہ اپنے بچوں کو فراموش کیے جارہے ہیں۔ بچوں اور والدین میں سماجی دوری کی ایک اور بڑی وجہ موبائل فون بھی بن چکا ہے۔
ہر گھر کی یہی کہانی ہے۔ ایک ہی کمرے میں والدین اور بچے اپنے اپنے موبائل فونز میں اِک دنیا سے تو رابطے میں ہوتے ہیں مگر ایک دوسرے سے لاتعلق ہوتے ہیں۔ کئی والدین اپنی مصروفیات کے باعث خود اپنے بچوں کو موبائل فون کی لت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ بچے اپنا جی بہلانے کےلیے کارٹونز یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موجود مواد کا سہارا لیتے ہیں۔
آج کے دور کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ والدین جہاں اپنے بچوں کو تعلیم کےلیے اعلیٰ ترین، مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں وہاں وہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ کیا اس درسگاہ میں بچے کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کی جارہی ہے یا نہیں۔ گھروں میں والدین خاص کر مائیں بچوں کی زبان اور ادب و آداب پر نظر رکھیں۔ یہ دنیا کا مانا ہوا اصول ہے کہ اگر تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو معاشرہ ترقی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتا۔