جہانگیر ترین کی سیاست

1997 میں قائم ہونے والی پنجاب حکومت میں مشیر اور 2002 میں مسلم لیگ فنکشنل کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر وفاقی وزیر رہ چکے تھے۔
بانی پی ٹی آئی کا قومی سیاست میں عروج کا نقطہ آغاز ہی جہانگیر ترین کے عین سیاسی عروج کا زمانہ تھا، ایک کامیاب کاروباری شخصیت اور جدت پسند کاشتکار کی حیثیت سے ترین صاحب اقتدار کے ایوانوں میں کوئی اجنبی شخصیت کبھی نہ تھے، 1997 میں قائم ہونے والی پنجاب حکومت میں مشیر اور 2002 میں مسلم لیگ فنکشنل کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو کر وفاقی وزیر رہ چکے تھے۔
جہانگیر ترین کا نام 2014 کے مشہور زمانہ دھرنے کی بدولت زبان زدعام ہوا، اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر ترین نے 2018 میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے تک بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کو بھرپور سیاسی اور مالی مدد فراہم کی، بدقسمتی سے 2017 میں میاں نواز شریف کی اعلیٰ عدلیہ سے ہوئی نااہلی کے باعث جہانگیر ترین بھی جسٹس ثاقب نثار کے بیلنسنگ ایکٹ کی نذر ہو کر انتخابی سیاست سے آوٹ ہوگئے، تاہم وفاق اور بالخصوص پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بنوانے میں بطور “پاور بروکر” ترین صاحب کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، انہیں تحریک انصاف میں سیاسی گاڈ فادر کی حیثیت حاصل تھی۔
بانی پی ٹی آئی کے غیر سیاسی مزاج اور اپنی اس وقت کی جماعت تحریک انصاف کے سب سے نمایاں پاور بروکر کی حیثیت سے حکومتی اتحادی اور تحریک انصاف کے بیشتر منتخب اراکین جہانگیر ترین سے قربت اور رابطے کو زیادہ اہمیت دیتے تھے، وہ کہتے ہیں نا “سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا”
ان کا یہی اثر و رسوخ تحریک انصاف کی باقی لیڈر شپ بشمول سابق وزیراعظم کو غیر محسوس انداز میں کھٹکنا شروع ہوگیا، حقیقت حال تو بانی پی ٹی آئی اور جہانگیر ترین ہی بتا پائیں، تاہم قرین قیاس یہی ہے کہ خود بانی پی ٹی آئی اور ان کے مشیر خاص اور پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، جہانگیر ترین کی وفاقی کابینہ میں شامل نہ ہونے کے باوجود اتنی زیادہ پذیرائی سے عدم تحفظ کا شکار ہو چکے تھے۔
میڈیا میں رپورٹ ہوئی خبروں کے مطابق جب جہانگیر ترین نے تحریک انصاف کے منتخب اراکین اور سیاسی اتحادیوں کے معاملات سے متعلق براہ راست احکامات وفاقی بیوروکریسی کو جاری کرنا شروع کئے تو ایک دن وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے جہانگیر ترین کو اپنا مشہور زمانہ جملہ کہا ” ملک میں بیک وقت دو وزیراعظم نہیں ہو سکتے”
میرا ذاتی خیال ہے کہ اعظم خان اس وقت کے وزیراعظم کی آشیرباد کے بغیر اتنی بڑی بات کہنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے، باخبر لوگوں کے مطابق اس واقعے کے بعد بانی پی ٹی آئی اور جہانگیر ترین کے مابین دوریاں پیدا ہونا شروع ہو چکی تھیں، بانی پی ٹی آئی کے مخالفین ان پر یہ الزام لگاتے آئے ہیں کہ وہ اپنی جماعت میں قابل اور مقبول دونوں طرح کی شخصیات سے بہت جلد عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں، پنجاب اور پختونخوا میں عثمان بزدار اور محمود خان ایسے کمزور افراد کی اتنے اہم عہدوں پر تعیناتی اس تاثر کو تقویت دیتی ہے۔
اسی دوران چینی کے بحران اور چینی کی برآمدات میں ہوئی بےضابطگیوں کے نتیجے میں سامنے آنے والے سکینڈل کو میڈیا اور اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم کے جہانگیر ترین سے ذاتی تعلق اور جہانگیر ترین کے چینی کے کاروبار سے منسلک ہونے کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔
بانی پی ٹی آئی نے خود کو اور اپنی حکومت کو اس سکینڈل سے بچانے کے لیے جہانگیر ترین کو قربان کرنے کا ایسا غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں پوری ترین فیملی بشمول ان کے اکلوتے بیٹے علی ترین سمیت ان کی بیٹیوں تک پر مقدمات کی بھرمار کر دی گئی، چینی سکینڈل کی تحقیقات کے سلسلے میں FIA کی جانب سے جو ذلت آمیز سلوک جہانگیر ترین، انکی فیملی اور ملازمین کے ساتھ روا رکھا گیا اس کے نتیجے کے طور پر جہانگیر ترین نے بانی پی ٹی آئی سے اپنی راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
مشہور کہاوت ہے: کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں
سیاست میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، اب کی بار وقت اور حالات بانی پی ٹی آئی کے خلاف ہو چکے تھے، اب وار کرنے کی باری جہانگیر ترین کی تھی اور ترین صاحب نے بھرپور وار کیا بھی جس کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی کو وفاق اور پنجاب کی حکومتوں سے ہاتھ دھونا پڑے، جہانگیر ترین نے اپنی تذلیل کا خوب بدلہ لیا، تاہم ایک روایت پسند سیاستدان کے طور پر جہانگیر ترین نے بانی پی ٹی آئی کی ذاتِ سے متعلق کسی قسم کے منفی یا ہتک آمیز تبصرے سے گریز کیا۔
گزشتہ برس تحریک انصاف کے اپنے پرانے ساتھی علیم خان کے ساتھ مل کر اپنی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کی بنیاد ڈالی، ان کے ساتھ جماعت میں شامل ہونے والے بیشتر ارکان کا تعلق خود ان ہی کی طرح پاکستان تحریک انصاف سے رہا تھا، اگرچہ اپنی جماعت میں تمام طبقات کےلئے نہایت دلکش اور متاثر کن منشور پیش کیا، پھر بھی ان کی بنائی جماعت کا عمومی تاثر کنگز پارٹی کا ہی رہا۔
2024 کے الیکشن انہوں نے دو حلقوں سے لڑے، ایک حلقہ این اے 149 ملتان اور دوسرا حلقہ این اے 155 لودھراں۔ دونوں سیٹوں پر مقتدرہ سے اپنے قریبی تعلق کی بدولت حسب منشا حلقہ بندیاں کرانے میں کامیاب رہے، ملتان کی نسبت لودھراں کی نشست پر اپنا فوکس زیادہ رکھا، یہاں پر تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی اور مضبوط امیدوار میاں شفیق آرائیں نے ایک ویڈیو پیغام میں انتخابات میں حصہ لینے سے ذاتی وجوہات کی بنا پر معذوری ظاہر کی۔
ان کے بعد تحریک انصاف نے پیر اقبال شاہ کو اپنا امیدوار نامزد کیا، یہ وہی پیر اقبال شاہ ہیں جنہوں نے مسلم لیگ نواز کی ٹکٹ پر 2018 کے ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو شکست سے دوچار کیا تھا، حیران کن طور پر انہوں نے بھی ویڈیو پیغام کی صورت الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کیا، اسی حلقہ سے تحریک انصاف کی دوسری نامزد کردہ امیدوار عفت سومرو نے الیکشن ڈے سے محض دو دن پہلے جہانگیر ترین کی حمایت کا اعلان کردیا۔
الیکشن مہم کے خاتمے سے محض ایک دن پہلے تحریک انصاف نے راو محمد قاسم کو اپنا امیدوار نامزد کر دیا، راو محمد قاسم ایک غیر معروف مزدور پیشہ آدمی جس نے بمشکل چند گھنٹے اپنی کمپین کی ہوگی، پچاس ہزار سے زائد ووٹ لیکر جہانگیر ترین کی ناکامی میں اپنا سا حصہ ضرور ڈال گیا، جہانگیر ترین لودھراں اور ملتان کے دونوں حلقوں سے بھاری مارجن سے ہارنے کے بعد سیاست سے مکمل دستبرداری کا اعلان کر چکے ہیں۔