پاکستان میں ووٹ کیوں اور کیسے چوری ہوتا ہے

پاکستان میں ہونے والے الیکشن پر ہیومن رائٹس میڈیا نیٹ ورک کی تہلکہ خیز رپورٹ

 

ندیم احمد ایڈووکیٹ

 

یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سب جانتے بھی ہیں اور کھل کر اظہار بھی نہیں کرتے ہیں، اس سوال کے بارے میںمزید گفتگو کرنے سے قبل ہم تاریخ کے اوراق سے ابھی کچھ عرصہ قبل نظر دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان نے 2018 میں جب اقتدار سنبھالا تو انہوں نے 3 بڑے کام کئے تھے جس میںایک نیب قانون میں ترامیم لائی گئی تھیں تاکہ احتساب کا گھیرا حقیقی لٹیروں کے خلاف مزید سخت ہو اور دوسرا بڑا کام اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان میںمعاشی ضروریات کو پورا کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیںاور جب ان کا اپنے ملک پر اعتماد بحال ہوگا تو وہ اپنی سیونگ زیادہ سے زیادہ پاکستانی بینکوں میںکریں گے، ملک میں خطیر زرمبادلہ ڈالر اور دیگر کرنسیوں میں پاکستان آئے گا جس کے نتیجے میں پاکستانی معیشت میں استحکام آئے گا- اس فیصلہ کا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے زبردست خیرمقدم کیا تھا اور عمران خان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا، اس کے بعد ایک اور حقیقی تبدیلی کا جو کام کیا وہ پاکستان میں شفاف انتخابات الیکٹرونک مشین EVM کے ذریعے کرانے کا بل پاس کیا جو بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا تھا، اس طریقہ کار کے تحت پاکستان بھی ان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آجاتا جہاں انتخابات شفاف طریقہ سے بغیر سوالیہ نشان ہوتے ہیں اور لوگوں کو اپنی رائے کے مطابق اپنے نمائندے بغیر کسی مداخلت اور ہیر پھیر منتخب کرنے کا موقع ملتا ہے- اس طریقہ کار سے نہ صرف اخراجات کم آتے ہیں بلکہ انسانی ہاتھوں کی ملمع کاری اور کاریگری سے بھی لوگوں کا حق رائے دہی محفوظ ہو جاتا ہے-
یہ تینوں بل پاکستان میں 75 سال سے قائم “اسٹیٹس کو” کے لئے ایک خطرہ کی گھنٹی بن گئے تھے کیونکہ انتخابات میں ہمیشہ اس کی شفافیت کا فقدان اور دھاندلی کی آوازیں اٹھتی رہی ہیں اور ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دھاندلی کر کے جیتا ہوئےامیدوار کے خلاف اگر الیکشن ٹریبونل کے بعد دیگر ایپلٹ کورٹ میں بھی کیس دائر ہوا ہے تو پاکستان کے ماشائ اللہ عدالتی نظام جس کا کارکردگی میں نمبر 139 ہے کے باعث اس کا فیصلہ اس وقت بھی نہیں ہوتا جب تک اسمبلی کی مدت ہی پوری ہو جاتی یے اور کیس اپنی موت آپ مر جاتا ہے-
بہرکیف ! 2021 میں عمران خان کی حکومت کو ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت ہٹا دیا گیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد کی تحریک میں وزیراعظم کو ڈی سیٹ کر کے اتحادیوں نے حکومت سنبھال لی، پورے ملک کی سیاسی جماعتیں مداری کی ڈگڈگی پر ایک شخص کے خلاف اکھٹی ہو گئیں اور ساجھے کی اس ہنڈیا کے وزیراعظم شہباز شریف منتخب ہوئے،
اس حکومت نے ابھی اپنے مسند اقتدار سنبھالنے کا سانس بھی نہیں لیا تھا کہ آنا± فانا± ان تینوں بلوں کو ٹھکانے لگا دیا- نیب قوانین میں اس درجہ کی ترامیم کی گئیں کہ اس احتساب کے اس واچ ڈاگ کے دانت نکال دئیے گئے ان ترامیم کا فائدہ صرف اور صرف سیاست دانوں اور کرپٹ افراد نے اٹھایا اور کھربوں روپے کی کرپشن میں ملوث سیاسی اشرافیہ اور افسر شاہی نے اپنے کیسز ختم کرا لئے-
یہ تو بھلا ہوا اس وقت کے چیف جسٹس عطا بندیال کا کہ انہوںنے ان ترامیم کو خلاف قانون قرار دے کر دوبارہ سے کیسز کو بحال کرنے کا حکم دیا- لیکن ابھی تک یہ کیسز مکمل طور پر نہیں کھل سکے ہیں اور پاکستانی بیوروکریسی اپنے سیاسی آقاو¿ں کے اشاروں پر اس کا ریکارڈ غائب کرکے انہیں نیب کورٹس سے باعزت بری کرا رہی ہے، جس کی مثال شریف خاندان کی راتوں بریت کے فیصلے جس میں زیادہ تر ریکارڈ کی عدم دستیابی یا شواہد کی کمی کی بنا پر انہیں کلین چٹ دے دی گئی-
اسی طرح اوورسیز پاکستانیوں سے ان کے ووٹ کا حق چھین کر نہ صرف بین الاقوامی قوانین سے انحراف کیا گیا بلکہ ان پاکستانیوں کے سیاسی و آئینی حق پر شب خون مارا گیا اور اس کی وجہ یہی تھی کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی بھاری اکثریت عمران خان کے حق میں تھی- پاکستانی “اسٹیٹس کو” اشرافیہ کو پتہ تھا کہ کسی بھی الیکشن میںان کے ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں- اتحادیوں نے اس مرحلہ پر بیرون ملک پاکستانیوںکی حمایت حاصل کرنے کے بجائے ڈوبتی ہوئی معیشت کوسہارا دینے کے لئے آئی ایم ایف سے منہ مانگی شرائط پر بھاری سود پر قرضے حاصل کر کے اس قوم کو قرض کی مزید گہری کھائی میں دھکیل دیا اور 16 ماہ کی بدترین مہنگائی اور تباہی مچا کر ہاتھ جھاڑتے ہوئے رخصت ہو گئے-
اس اتحادی حکومت نے تابوت میں آخری کیل یعنی تیسرا کام الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعہ انتخابات کرانے کا قانون ٹھکانے لگا کر کیا کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ ان مشینوں سے فنگرپرنٹ یعنی بائیو میٹرک کے ذریعہ ووٹر کی شناخت ہو جاتی ہے اور یوں انتخابات شفاف انداز میں ہوتے جو پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور سول و ملٹری بیوروکریسی جسے اسٹبلشمنٹ بھی کہا جاتا ہے کو کسی طور پر بھی قبول نہیں، لہذا اس بل کا خاتمہ کرتے ہوئے صدیوں سال پرانا نظام انتخابات اس قوم پر تھوپ دیا گیا جس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کارفرما ہوتا ہے-
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی نے ان تینوں بلوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس میں چیف جسٹس سمیت بنچ کے دیگر ججز نے یہ ایک قانونی سوال اٹھایا تھا کہ اتحادی حکومت ایسے بل کس طرح منظور کرا سکتی ہے جبکہ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے اراکین موجود ہی نہیں، واضح رہے کہ اتحادی حکومت آنے کے بعد عمران خان نے اپنی جماعت کے ساتھ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور بعدازاں انہوں نے استعفی بھی دے دئے تھے لہذا ایک ادھوری اور نامکمل پارلیمنٹ کیسے اراکین اسمبلی کی کثیر تعداد میں غیرحاضری پر ایسے اہم بل منظور کروا کے انہیں قوم پر مسلط کر سکتی ہے- لیکن پاکستان میں تو ایسا ہی ہوتا ہے جسے پیا چاہے وہی سہاگن-
اتحادی حکومت نے جو اقتدار میں کمپرومائز ایگری منٹ کے تحت معرض وجود میں آئی تھی یہ تینوں کام کرکے الیکشن 2024 میں اس کی پوری قیمت وصول کر لی اور اب 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کے نتائج اس پروگرام کی 13 فروری کو ہونے والی ریکارڈنگ یعنی چار دن بعد مکمل پیش نہیں کئے گئے اور ان پانچوں دنوں میںمیڈیا کے چینلز گواہ ہیں کی کس طرح ایک جیتے ہوئے امیدوار کو راتوں رات ہروا کر ہارے ہوئے امیدوار کو جتوا دیا گیا-
اس کھلی دھاندلی اور نتائج کو روکنے اس میں مبینہ ہیرا پھیر کرنے پر امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی اپنی ناپسندیدگی اور تشویش کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے نہ کہ اندرونی سازشیں کر کے اپنے من پسند لوگوں کو قوم پر مسلط کیا جائے-
جیسا کہ ہمارے پروگرام کا موضوع ”پاکستان میں ووٹ کیوں اور کیسے چوری ہوتا ہے” تو اس سوال پہلے جز کا جزوی جواب تو مندرجہ بالا تمہید کی صورت میں آپ کو سمجھ میں آ گیا ہو گا-
دراصل الیکشن یا انتخاب عوام کا حق رائے دہی ہوتا ہے جس میں وہ اپنے رہنماو¿ں کو چنتے ہیں تاکہ وہ اسمبلی میں جا کر ان کے حقوق کی ترجمانی کر سکیں، ان کے علاقوں میں ترقیاتی کام ہوں انہیں بنیادی سہولیات میسر آئیں، سڑکیں، فراہمی و نکاسی آب سے ان کے علاقے مزین ہو سکیں- گیس، بجلی اور دیگر یوٹیلٹی کے بل ان کے بجٹ اور آمدنی کے حساب سے لئے جائیں ، عوام جو ٹیکس عوام کو دیتی ہے تو اس کا منتخب نمائندہ اس ٹیکس کے ذریعہ اپنے حلقہ انتخاب کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے- اسی لئے اسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے، یعنی عوام کا فیصلہ، عوام کے لئے عوام کے ذریعے-
لیکن افسوس کی بات ہے پاکستان کی تاریخ میں کبھی عوامی رائے کا احترام نہیں کیا گیا، وہ الیکشن خواہ مادر ملت فاطمہ جناح کے زمانہ کے ہوں یا حالیہ الیکشن،
بینظییر بھٹو نے ایسے الیکشن کو ایک تاریخی نام دیا تھا یعنی ” انجنئیرڈ” الیکشن، عوام چاہتی کیاہے اور اسے ملتا کیا ہے، حالیہ الیکشن کا بھی تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے اسکور بورڈ پر درج ذیل نتائج ردوبدل اور انجنئیرنگ کی اعلی مثال کی غمازی کرتے ہیں، جس پر سوشل میڈیا پر ایک بہترین پوسٹ اس کا حقیقی نقشہ پیش کرتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ
جنرل الیکشن 2024 کا ٹیسٹ میچ پانچویں دن میں داخل،،

پہلا دن: پی ٹی آئی 179/ ن لیگ 35
دوسرا دن: پی ٹی آئی 136/ ن لیگ 57
تیسرا دن: پی ٹی آئی 96/ ن لیگ 78
چوتھا دن: پی ٹی آئی 93/ ن لیگ79
اور آج پانچ روز گزرنے کے بعد بھی الیکشن کمیشن سرکاری اور حتمی نتائج جاری کرنے میں ناکام رہا ہے جو اس ادارہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے-
اب ہم آتے ہیں کہ انتخابی نتائج کیسے تبدیل ہوتے ہیں تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب تمام پولنگ اسٹیشن میں ووٹنگ کا مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کی موجودگی میں ایک فارم 45 مرتب کیا جاتا ہے جس میں ہر پولنگ اسٹیشن میں کاسٹ ہونے والے ووٹوں کی تعداد ہوتی ہے یعنی کس کس امیدوار کو کتنے ووٹ کاسٹ کئے گئے- ان فارم پر الیکشن کا نمائندہ دستخط کرکے اس کی کاپیاں تمام امیدواروں کے پولنگ ایجنٹس کے حوالے کر دیتا ہے- اس کے بعد یہ ووٹ سربمہر کرکے آر او آفس میں بھیج دئیے جاتے ہیں جہاں ان ووٹوں کی دوبارہ گنتی کر کے الیکشن کمیشن کا عملہ فارم 46 کی کارروائی کرتے ہوئے فارم 47 کے تحت سرکاری طور پر جیتنے والے امیدوار کے نام کا اعلان کر دیتا ہے- اصل میں مطلوبہ نتائج دکھانے کے لئے یہی مرحلہ ہوتا ہے جس میں ٹمپرنگ کی تمام کارروائیاں ہوتی ہیں، اب ری کاو¿نٹنگ کرنے والے درست ووٹوں میں کوئی نقص ڈال کر کتنے ووٹ مسترد کرکے جیتے ہوئے امیدوار کی جیت کو ہار میں تبدیل کردیں یہ سب ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے-
اب ہارے ہوئے امیدوار کے پاس یہ آپشن ہوتا ہے کہ وہ اس فیصلہ کو الیکشن ٹریبونل میں فارم 45 کے نتائج کی روشنی میں چیلنج کرے اور اس کے نتیجے میں الیکشن ٹریبونل جو بھی فیصلہ کرتا ہے تو متاثرہ فریق کے پاس ہائی کورٹ میں اس کی اپیل اور بعدازاں سپریم کورٹ میں اپیل کا راستہ کھلا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے-
لاہور کورٹ نے اسی بنیاد پر براہ راست دائر کی گئیں 18 آئینی درخواستیں مسترد کیں اور متاثرین کو الیکشن ٹریبونل سے رجوع کرنے کی ہدایت کی- جن میں ایک معروف وکیل سلمان راجہ کی درخواست بھی شامل تھی-
پاکستان کے عدالتی نظام کا حال یہ ہے کہ یہ اپیلیں سالہا سال چلتی رہتی ہیں یہاں تک کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کر جاتی ہے، ماضی میں شازیہ مری سمیت متعدد اراکین قومی اسمبلی کے خلاف یہ اپیلیں ابھی تک چل رہی ہیں اور یہ افراد اسمبلی میں مزے لوٹ کر اب دوبارہ سے قوم پر مسلط ہو چکے ہیں-
پاکستان کے اس جھرلو الیکشن پر بین الاقوامی میڈیا سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں یعنی امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے اپنی تشویش اور ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے جس پر الگ سے رپورٹ پیش کی جائے گی-
حالیہ انتخابات میں جو سب سے منفرد چیز دیکھنے میں آئی وہ اصل میں ووٹرز کا زیادہ سے زیادہ اپنے رائے حق دہی کے لئے باہر نکلنا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں بھاری تعداد خواتین کی ہے جن کے ووٹوں نے مقتدر حلقوں میں بھونچال پیدا کر دیا ہے اور اس کی پذیرائی امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے بھی کی ہے، ان انتخابات کا اب مستقبل کیا ہوگا یہ بات وقت کے ساتھ مزید سامنےآ جائے گی لیکن اب پاکستانی قوم کے بڑھتے ہوئے شعور نے اس کی نشاندہی کر دی ہے کہ اگر مقتدر حلقوں نے انتخابات میں ہیر پھیر اور عوامی خواہشوں کے برعکس اپنے پسندیدہ امیدواروں اور جماعتوں کو اسی طرح انجنئیرڈ طریقے سے جتوانے کا عمل جاری رکھا تو کوئی بعید نہیں کہ اگلے الیکشن تک اسی عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک جا پہنچے-
ان الیکشن کے انجنئیرڈ ثابت ہونے کے لئے یہ واقعات ایک بہترین مثال ہے جب 2013 کے الیکشن میں نواز شریف نے الیکشن کے 3 گھنٹے بعد ہی اپنی تقریر میں اپنی فتح کا اعلان کر دیا تھا جس پر عمران خان ہمیشہ شور مچاتے رہے کہ انہیں صرف تین گھنٹے بعد ہی کیسے پتہ چل گیا کہ وہ فتح یاب ہو چکے ہیں اور اب حالیہ الیکشن میں جب سندھ میں بھاری تعداد میں ووٹ اور فارم 45 کی روشنی میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی اکثریت سے سیٹوں پر سبقت لے چکی تھیں تو رات 9 بجے کے قریب ہی متحدہ قومی موومنٹ نے 18 سیٹوں پر اپنی جیت کی خبر سنا کر سب کو سناٹے میں ڈال دیا اور لوگوں نے ان کی بات کو دیوانے کا خواب قرار دے کر نظر انداز کر دیا لیکن 2 دن کے اندر ہی ایم کیو ایم پاکستان کی 17 سیٹوں کے اعلان نے ثابت کر دیا کہ پاکستان میں انتخابات کے نتائج کا مروجہ طریقہ کار اپنایا گیا اور اپنے پسندیدہ امیدواروں کو پہلے ہی سے خبر سنا کر انہیں ان کی غلامی اور تابعداری کا تحفہ دے دیا گیا-
یہاں قابل ذکر بات پاکستان میں الیکشن کو مانیٹر کرنے والا ادارہ فافن یعنی فئیر اینڈ فری الیکشن نیٹ ورک نے اپنی چونکا دینے والی رپورٹ پیش کر کے پاکستان سمیت دنیا بھر کی آنکھیں کھول دی ہیں- فافن کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 16 لاکھ ووٹ مسترد ہوئے، صرف ملتان میں سوا لاکھ سے زیادہ ووٹ مسترد ہوئے۔ یہ ووٹ زیادہ تر ان حلقوں میں مسترد ہوئے جہاں سے پی پی اور نون کے امیدواروں کو جتوایا گیا۔ فافن کے مطابق حالیہ الیکشن میں مسترد ووٹوں کی تعداد 16 لاکھ سے زائد ہے اور کل پاکستان میں جو رجسٹرڈ ووٹ ہیں ان کی تعداد 12 کروڑ 80 لاکھ کے قریب ہیں جن میں سے اس الیکشن میں جو ووٹ پول ہوئے ہیں وہ 6 کروڑ کے لگ بھگ ہیں، ان میں سے 16 لاکھ ووٹ مسترد ہوئے ہیں اور ان کی بڑی تعداد 25 حلقوں سے مسترد کی گئی ہے اور 25 حلقوں میں جو 23 حلقے ہیں وہ پنجاب میں ہیں اور ان میں سے جو 14 سیٹیں ہیں وہاں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو کامیاب کروایا گیا ہے اور 5 سیٹیں پیپلز پارٹی کی ہیں اور ان 5 سیٹوں میں 2 سیٹیں باپ بیٹے یعنی ایک سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹے جو پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ مہربانو قریشی سے جیتے ہیں ان کی ہیں اور مہربانو قریشی کے مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 16 ہزار سے زائد ہے اور یوسف رضا گیلانی جو اپنی سیٹ جیتے ہیں وہ بہت معمولی مارجن سے جیتے ہیں اور ان کے حلقے میں جو ووٹ مسترد ہوئے ہیں ان کی تعداد 12 ہزار سے زائد ہے-
فافن کی یہ رپورٹ ہمارے اس تجزیے کی گواہی پیش کرتی ہے کہ جو اوپر ووٹوں کا سفر یعنی پولنگ اسٹیشن سے لے کر آر او آفس تک ہوتا ہے اور کیسے انتخابی نتائج تبدیل کر دئیے جاتے ہیں اس کا ایک مدلل جواب ہے-